सोमवार, 4 जुलाई 2011

تمھیں پانے کی خوہش ہے مگر چھونے سے ڈرتے ہیں
سنا ہے   اس  کے قطرے  بدی  جلدی   بکھرتے   ہیں 

تمہاری یاد سے منسوب افسردہ آندھیروں میں
کی  منظر چمکتے ہیںکی سا ے ابھرتے ہیں

وو کچھ راتیں جو تھمنے چاندنی بنکر منوّر کیں
انہیں راتوں کے صدقے سے کسی کے دیں گزرتے ہیں

کبھی تکتے ہیں مستقبل کے مبہم آسمنوں کو
کبھی ماضی کے آشفتہ اندھیروں میں اترتے ہیں

کبھی اکتا کے اٹھتے ہیں بگولا بن کے ہم خود میں
کبھی دل کے  بیاباں میں گلوں کے رنگ بھرتے ہیں

ہمیں معلوم ہے اکھڑ اندھیرا چھ ہی جاےگا
مگر امید میں بجھتے دے کی لو کترتے ہیں

بدی جادو بھری ہوتی ہیں اہل ہجر کی راتیں
قمر دیتا ہے موضوع اور  ستارے بات کرتے ہیں 

ہم اکثر روبرو  رکھکر تمہاری یاد کا درپن
کبھی مایوس ہوتے ہیں کبھی بنتے سنوارتے ہیں 

بدی کاوش سے اتے ہیں حقیقت کی چٹانوں پر 
بدی مشکل سے خوابوں کے تلٹم سے ابرتے ہیں 
                                          منش شکلا    


कोई टिप्पणी नहीं:

एक टिप्पणी भेजें