خواب کا چہرہ پیلا پڑتے دیکھا ہے
اک تعبیر کو سولی چڑھتے دیکھا ہے
اک تصویر جوآئینے میں دیکھی تھی
اسکا اک اک نقش بگڑتے دیکھا ہے
صبح سے لیکر شام تلک ان آنکھوں نے
اپنے ہی ساےکو بڑھتے دیکھا ہے
اس سے حال چھپانا تو ہے ناممکن
ہمنے اسکو آنکھیں پڑھتے دیکھا ہے
اشک رواں رکھنا ہی اچھا ہے ورنہ
تالابوں کا پانی سڈتے دیکھا ہے
اک امید کو ہمنے اکثر خلوت میں
ایک ادھوری مورت گدھتر دیکھا ہے
دل میں کوئی ہے جسکو اکثر ہمنے
ہر الزام ہمیں پر مدھتے دیکھا ہے
منش شکلا
कोई टिप्पणी नहीं:
एक टिप्पणी भेजें